پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں قانون تو موجود ہے لیکن قانون کی پاسداری کوئی بہت مشکل سے کرتا ہے عوام اگر ملک میں موجود قانون کی پاسداری کرنا شروع کر دیںتو کافی حد تک جرئم پر کنٹرول کیا جاسکتا ہےبہت ہی معمولی معمولی سی غلطیاں ہیں جو ہم کرنا چھوڑ دین تو نقصان سے ہم لو گ بچ سکتے ہیں اگر ہم قانون کا احترام کریں اور اگر کوئی قانون کے خلاف ورزی کرتا نظر آئے تو اس کی اطلاع پولیس یا کہ پھر حکومت کےبنائے ہوئے شکایت سل کو اطلاع دیں تو شائد ہماری وجہ سےبہت سے قانون شکن قانون کی گرفت میں آجائیں جیسے کہ آج کل جعلی ادیات بیچنے اور بنانے کا دھندہ عروج پر ہے بہت ساری جگہ چھاپے بھی مارے جاتے ہیں لوگوں کوسزا بھی ہوتی ہے پھر کیا وجہ ہے پھر جعلی ادویات کا دھندہ عروج پر ہےاور میڈیکل سٹورز پر سر عام جعل دوائیاں سل ہو رہی ہے اور جگہ جگہ یہی ادویات تیار بھی ہوتی ہے ان کیلئے بڑی بڑی فیکٹروں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ گلی محلوں یا جہاں نئی نئی آبادیاں آباد ہوتی ہیں وہان تیار ہوتی ہیں اگر ہم لوگ تھوڑی سی توجہ دین اور ایک ذمہدار شہری ہونے کا ثبوت دیں تو یہ کالی بھیڑین جو انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہی ہیں ان کو ان کے انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے لیکن آج کل ہے انسان صرف اپنا سوچتا ہے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا کہ ان کے علاقہ میں کیا ہو رہا ہے جو لوگ جانتے بھی ہیں کچھ تو ڈر کی وجہ سے خاموش ہو جاتے ہیں اور کچھ اپنی ذات میں ہی مگن ہوتے ہیں اس طرح ایسے لوگوں کو تقویت ملتی ہے اسی طرح گلی محلوں میں نشہ بیچنے والے لوگ ہوتے ہین جنہوں نے نوجوان نسل کو ان کے انجام تک پہچانے کی قسم کھا رکھی ہے اسی طرح کئی جعلی مصنوعات جو کہ گلی محلوں میں بنتی ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس کی اطلاع پولیس کو دیں لیکن ہم کسی جھنجنٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتے جس سے ان جرائم پیشہ لوگوں کا ھوصلہ اور زیادہ بلند ہوتا ہے ۔اسی طرح بسوں ویگنوں میں سگریٹ پینا منع ہے لیکن بہت سے لوگ سگریٹ کا دھواں دوسروں کو بھی منتقل کر رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی ایسے لوگوں کو منع نہیں کرتا حالانکہ ایسے لوگوں کے لیئے 3 ماہ کی قید ہے اسی طرح 18 سال سے کم عمر کے بچوں کیلئے کوئی بھی گاڑی چلانا منع ہے لیکن بچے اور بڑے اس پر کوئی عمل نہیں کرتے اور اکثر بچے حادثہ کر بیٹھتے ہیں بعض اوقات جانی اور مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ہم اپنے بچوں کو ایسی باتوں سے باز رکھیں تو ہم اس طرح کے نقصان سے بچ سکتے ہیں اسی طرح آج کل پان سگریٹ کی دوکانون پر لکاہوتا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کے افراد کوسگریٹ نہیں بیچے جائیں گے لیکن سر عام دوکاندار بچوں کو سگریٹ بچ رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی توجہ نہیں دیتا اور بچے نشہ کے عادی بن جاتے ہیں اگر بروقت ایسی معمولی معمولی باتون کی اطلاع پولیس کو دیں تو بڑے بڑے جرائم پر قابو پا سکتے ہیں کوئی بھی جرم چھوٹا نہیں ہوتا چھوتا جرم ہی بڑے جرم کی ابتداء ہوتی ہے اگر ہم چھوٹے چھوٹے جرائم کو نظر انداز کریں گے تو برے جرم پر قابوپانا مشکل ہوجائے گا ہر شہری کے اس ملک کیلئے حقوق ہیں اس ملک نے اگر ایک باشندے کو اپنی پہچان دی ہے تو اس باشندے کا بھی کچھ فرض اور ذمہ داریاں ہیں جو کہ ہے پاکستانی کو پوری کرنی چاہیئے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں تو سکون سے رہ سکیں اسی طرح حکومت کی بھی اس ملک پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے جب کوئی بھی قانون بنایا جائے تو اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے اگر قانون بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے تو قانون بناہے اس الیئے قانون کی پاسداری بہت ضروری ہے اگر حکومت کسی بھی قانون پر سختی سے عمل درآمد کراے تو بڑے جرائم پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے جس مثال موجود ہے پتنگ بازی کس طرح عام تھی ہر کوئی پتنگ بازی کرتا تھا اور لوگ اس کا کاروبار کرتے تھے اور لاکھون روپے کماتے تھے لیکن جب حکومت نے پابندی لگائی اور اس پر سب کو سختی سے عمل کرایا تو آج پیتنگ بازی دم توڑ چکی ہے اسی طرح اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر حومت توجہ دے ارو سختی سے نوٹس لے تو کوئی وجہ نہیں کہ دوبارہ اس طرح کا جرم کوئی کرے گا ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو اگر اہمیت دی جاے تو جرائم کو روکا جاسکتا ہے
Topics:
social issu
Be the first person to like this.